رسا نیوز ایجنسی کی عالمی سرویس کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، «ھندوستان خصوصا کشمیر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ» کے عنوان سے علمی نشست ، رسا نیوز ایجنسی کے مرکزی آفس شھر قم میں منعقد ہوئی جس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے بین الاقوامی شعبہ کے ذمہ دار حجت الاسلام والمسلمین سید شفقت حسین شیرازی اور کشمیر کے سیاسی ، سماجی اور ثقافتی ماھرین نے شرکت کی ۔ اس علمی نشست میں مختلف نیوز ایجنسیوں کے رپورٹرس موجود تھے ۔
حجت الاسلام والمسلمین سید شفقت حسین شیرازی نے اس نشست میں مسلمانوں، ھندووں ، سامراجیت اور کشمیر کے درمیان موجود اختلافات کی تاریخ کی جانب اشارہ کیا اور کہا: برطانیہ، پرتگال اور فرانس نے سرسبز وشاداب بر صغیر کو لوٹنے کے لئے اس طرف کا رخ کیا. مقامی باشندوں بالخصوص مسلمانوں نے ہر استعماری طاقت کے سامنے مقاومت دکھائی اور غاصب دشمنوں کا مقابلہ کیا . لیکن ایک وقت آیا کہ پورا ھندوستان 1857 کی جنگ کے بعد برطانوی سامراج کے قبضے میں چلا گیا۔
انہوں نے مزید کہا: برطانیہ نے ھندوستان کی دولت پر اپنا قبضہ باقی رکھنے کے لئے پرانی اور قدیمی سیاست، اور وہ یہ کہ فتنہ پھیلاو، لڑاو اور حکومت کرو، کا سہارا لیا ۔ 1967 عیسوی میں دو اھم قدم اٹھائے گئے پہلے قدم میں اردو زبان اور عربی رسم الخط کے خلاف ھندووں نے تحریک چلائی اور برطانوی سامراج نے فتنہ پروری کی ، دوسرا قدم اسی سال مدرسہ دیوبند کی بنیاد رکھی گئی ، جنھوں نے مسلمانوں کے مابین اختلافات کو ابھارا۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے عالمی شعبہ کے ذمہ دار نے واضح طور سے کہا: مسلم لیڈر «سر سید احمد خان» ابتداء ہی سے اس فتنہ کے خلاف اور ھندو مسلم اتحاد قائم کرنے میں مصروف رہے مگر حد سے زیادہ فتنے کو جڑ پکڑ لینے اور ھندووں کے متعصبانہ رویے کی وجہ سے اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے نتیجہ میں حالات کے تقاضے کے تحت انہوں نے سب سے پہلے «دو قومی» نظریہ پیش کیا ۔
انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جب مسلمانوں نے ھندووں کی روش دیکھی تو انہیں احساس ہوا کہ برطانیہ سے آزادی کے بعد ہم ھندو غلامی میں چلے جائیں گے. اس لئے اپنے مستقبل اور حقوق کے تحفظ کیلئے سن 1905 عیسوی میں «مسلم لیگ» پارٹی کی بنگال میں بنیاد رکھی گئی اور «محمد علی جناح» اس پارٹی نیز کانگریس کا بھی حصہ تھے، بیان کیا: اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے میثاق لکھنو معاھدے پر مسلم لیگ اور گانگرس کے مابین دستخط ہوئے جس میں «محمد علی جناح» پیش پیش تھے . کانگریسی لیڈرشپ اور ھندو عزائم کے پیش نظر یہ معاھدہ فقط کاغذ کی حد تک ہی محدود رہا اور ھرگز مقام عمل میں نہ لایا گیا ۔
سرزمین پاکستان کے اس شیعہ عالم دین نے یہ کہتے ہوئے کہ مھاتما گاندھی نے خود مسلمان نہ ہونے کے باوجود پہلی عالمی جنگ کے بعد خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے پر ھندوستان میں چلائی جانے والی تحریک خلافت کی حمایت کی اور اسی مقصد کے تحت بعض نماز جمعہ میں تقریریں بھی کی کہا: محمد علی جناح نے مھاتما گاندھی کو تحریر کردہ خط میں انہیں اس عمل سے گریز کرنے کی دعوت دی، کہ اپ کا یہ عمل اندورنی اختلافات کے ابھرنے سبب بنے گا اور ایسا ہی ہوا ، مھاتما گاندھی کا یہ عمل درحقیقت ایک سیاسی کھیل تھا ۔
انہوں نے واضح طور سے کہا کہ دیوبندی اور وھابی پاکستان کی بنیاد رکھنے کے مخالف تھے ، وہ اسلامی خلافت کے درپہ اور فتوحات کے خواہاں تھے ۔
کشمیر کو مسلمانوں کی اکثریت کے سبب پاکستان سے ملحق ہونا چاھئے تھا
حجت الاسلام والمسلمین شیرازی نے پاکستان کو ھندوستان سے الگ ہونے کے اسباب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : 1937 کے عام انتخابات میں کانگرس کو مسلم اکثریتی علاقوں میں جب کامیابی ملی تو انھوں نے مسلمانوں کو بہت مایوس کیا اور ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کا پاس نہیں رکھا ۔ جس سے ان کی حقیقت کی قلعی کھل گئی ۔ لہذا 1946 میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلمانوں کی دوتہائی اکثریت نے مسلم لیگ اور علیحدہ ملک، پاکستان بنانے کے حق میں ووٹ دیا ۔ جسے برطانوی حکومت اور کانگریس کو مسلمانوں کا یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا اور طے پایا کہ جن جن صوبوں میں مسلم اکثریت ہے وہ پاکستان کا حصہ ہوں گے ۔
انہوں نے مزید کہا: اس فیصلے و قانون سے جموں کشمیر بھی الگ نہ تھا کیوں کہ وہاں کی ۹۰ پرسنٹ ابادی مسلمانوں کی تھی، مگر چونکہ کشمیر کے راجہ کا رجحان ھندوستان کی طرف تھا اسی بنیاد پر وہ اس راہ میں روڑے اٹکاتا رہا ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے عالمی شعبہ کے ذمہ دار نے کہا: مسئلہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے اور یہ اس وقت تک مکمل نہ ہو پائے گا جب تک کشمیر ، کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق آزاد نہیں ہوگا یا پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا۔
انہوں نے مزید کہا: اگر ہم کشمیر کے مسئلہ کی تہہ تک پہونچنا چاہیں تو یہ بات معلوم ہوگی کہ کشمیر کا مسئلہ ایک مذھبی اور قومی مسئلہ ہے اگر کشمیری تیمور شقیہ کی طرح عیسائی ہوتے کو انہیں کب کی آزادی مل چکی ہوتی۔ مگر اس بات پر بھی توجہ دینا ضروری ہے کہ مذھبی فتنہ یعنی سنی اور شیعہ اختلافات اور دینی اختلافات کشمیر میں موجود نہیں ہیں ۔ مسئلہ ھندوستانی حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویے کا ہے ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے عالمی شعبہ کے ذمہ دار نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ وزیر اعظم «نریندر مودی» شدت پسند گروہ «RSS» کا حصہ ہیں مزید کہا : مودی 70 کے عشرہ میں اس شدت پسند گروہ کے مبلغ رہے ہیں ، اور اگر ہم یہ سمجھانا چاہیں کہ «RSS» کی ھندووں کے نزدیک کیا اہمیت ہے تو اس سلسلہ میں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ھندووں کے نزدیک اس گروہ کی حیثیت ویسے ہی ہے جیسے یہودیوں کے نزدیک صھیونیوں کی ہے ۔
ھندوستانی وزیر اعظم کا ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں
انہوں نے گجرات میں «نریندر مودی» کے چیف منسٹر کے دوران ہونے والی جنایتوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا: اس دوران ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، عورتوں اور بچوں کو زندہ جلایا گیا اور اج وہ اسی منظر نامہ کو کشمیر میں پیش کرنے میں کوشاں ہیں جو اسرائیل ایک مدت سے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ انجام دیتا ارہا ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین شیرازی نے «نریندر مودی» کو غاصب صھیونیت، امریکا اور سعودیہ عربیہ کا ہم پیمان جانا اور کہا : مودی کا وجود ، اس کی فکریں اور «RSS» گروہ علاقہ کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا: کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کی مقدار ، فلسطینوں سے کم نہیں ہے مگر کشمیری عوام کی سب سے بڑی مشکل اور مجبوری موصلاتی وسائل کا فقدان ہے ، میڈیا وہاں کے حالات کو نشر نہیں کرتی ، اقوام متحدہ کے ذمہ داروں کے بقول کشمیر میں ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا گیا ، اور ھزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی ۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے عالمی شعبہ کے ذمہ دار نے مزید کہا: اگر کشمیر کے مسئلہ کو بحرین، یمن اور فلسطین کے مانند پیش کیا گیا ہوتا تو اج ہم ھرگز اس حادثہ کے شاھد نہ ہوتے ، کشمیر ، پاکستان اور ایران کے دشمن کا مشترکہ ھدف ہے ، لہذا اس مسئلے پر پوری امت مسلمہ بالخصوص ایران و پاکستان کو مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے ،اگر مسلمان ملکر کر اتحاد و استقامت دکھائیں تو کشمیری عوام پر ظلم کا خاتمہ ہوگا اور یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا ۔